عشق بلا خیز
عشق بلا خیز
از قلم ۔ شگفتہ ارم درانی۔ پشاور
قسط نمبر۔3
شاہدہ نے کہا۔ '' رات 2 بجے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ وہ کوئی اور بھی تو ہو سکتا ہے۔ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہوکہ وہ نوید ہی تھا۔''
'' یقین تو ہمیں بھی نہیں تھا۔ لیکن صبح فیروز نے کنویں کے پاس نوید کا شناختی کارڈ پڑا دیکھا تھا اور فوراً شہر اس کی خیر خبر کے لئے رابطہ کیا تو نوید نے خود اقرار کیا کہ وہ رات کنویں پر گیا تھا۔''
'' اوہ۔۔۔۔! اچھا۔ ''ارشی نے سوچتے ہوئے کہا۔
'' اب تم تو جانتی ہو ارشی کہ پرانے کنویں کے قریب تو رات کو کتے بھی نہیں جاتے۔ کیونکہ وہاں جن بھوت گھومتے پھرتے ہیں اور نوید حقیقت جانتے ہوئے بھی۔۔۔۔۔۔۔؟''
ابھی شاہدہ بول ہی رہی تھی کہ اس کی ماں نے آواز دی۔'' شاہدہ ذرا ادھر آنا'' اور شاہدہ '' میں ابھی آتی ہوں'' کہہ کرچلی گئی۔ جبکہ ارشی کچھ سوچنے لگی۔
اچھا تو یہ مسئلہ ہے ۔ شاہدہ نے خود سے کہا اور ساتھ ہی کانپ کر رہ گئی کیونکہ پرانے کنویں کا خیال آتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔
'' پرانا کنواں '' گاؤں کے ایک طرف واقع تھا۔ جس کے کنارے پر برگد کا ایک پرانا درخت کھڑا تھا۔ ہندوؤں کے زمانے میں یہاں عورتیں آ کر پوجا پاٹ کرتی تھیں اور اپنے ہیرے جواہرات کنویں کی عمیق گہرائی میں پھینک دیتیں۔ وہ درخت کو اپنا بھگوان مانتیں۔ اور شکرانے کے طور پر اپنے زیورات کنویں میں پھینک دیتیں۔ جب یہاں مسلمان آئے تو انہوں نے کنویں کی گہرائی میں سونا تلاش کیا لیکن حیرت انگیز طور پر انہیں سونے کی کوئی چیز نہ ملی۔ کنویں کو ختم کر کے یہاں آبادی کرنے کے بارے میں سوچا گیا۔ اس مقصد کے لئے ایک زمیندار نے پہلے برگد کے درخت کو کاٹنے کے لئے مزدور وغیرہ بلائے۔ لیکن جیسے ہی آرا درخت کے تنے پر چلتا وہاں سے خون نکل آتا جسے دیکھ کر مزدور ڈر گئے اور درخت کاٹنے سے انکاری ہوگئے۔ کنویں کو بند کرنے کے لئے اسے مٹی سے بھر دیا گیا لیکن دوسرے دن کنویں میں مٹی کے بجائے زہریلے کیڑے بھرے ہوئے ملے جو اناً فاناً رینگتے ہوئے قریبی آبادی میں گھس گئے اور ہر گھر میں اتنی بیماریاں پھیلائیں کہ آئے دن کوئی نہ کوئی مرنے لگا۔ یہ صورتحال دیکھ کر زمیندار نے کنویں اور درخت کو اسی حالت میں رہنے دیا اس کے بعد اس جگہ کو پر اسرار اور آسیب زدہ سمجھا جانے لگا۔ وہاں رات کو کئی دفعہ گاؤں کے لوگوں نے عجیب الخلقت مخلوق دیکھی تھی۔ گاؤں کا کوئی کتا بھی اگر رات کو کنویں کے کنارے سوتا تو صبح مردہ ملتا تھا۔ اس لئے کنویں کی دہشت مزید بڑھ گئی تھی۔ وہاں سے اکثر عورتوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ غرض وہ جگہ بھاری سمجھی جانے لگی اور لوگوں نے وہاں شام کے بعد جانا ترک کر دیا۔ نجانے کن وجوہات کی بنا پر نوید کنویں پر رات کے 2 بجے اکیلا چلا گیا۔
کنویں سے سب خوف کھاتے تھے سوائے ''مائی بختو'' کے۔ جو کنویں سے پورے20 گز دور گاؤں کی گلی میں سفید چادر زمین پر ڈالی رہتی تھی۔ ایک تکیہ، ایک تسبیح اور ایک جائے نماز ہی اس کی کل کائنات تھی۔ لوگ اسے خدا ترسی میں کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ دے دیتے۔ مائی بختو کے گرد سارا دن لوگوں کا جم غفیر رہتا تھا۔ ان کے ہاتھ میں خدا نے اتنی شفا دے رکھی تھی کہ وہ جس کو بھی دعا دے دیتیں وہ خوشحال ہو جاتا اور ہر قسم کی بیماری اور تنگی ختم ہو جاتی۔ ارشی مائی بختو کی دل سے عزت کرتی تھی۔ ارشی نے ہوش سنبھالتے ہی مائی بختو کی وہیں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے دیکھا۔ مائی بختو دبلی پتلی ادھیڑ عورت تھی۔ ان کے چہرے سے ہمیشہ نور ٹپکتا تھا۔ وہ سارا دن تسبیح ہاتھ میں لئے کنویں کو گھورے جاتیں۔ اگر کوئی اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوجاتا تو وہ فوراً ہاتھ کے اشارے سے اسے سامنے سے ہٹا دیتیں تھیں اور دوبارہ کنویں پر نظر گاڑ دیتی۔ لوگوں کو یقین ہو چلا تھا کہ مائی بختو کا کوئی تعلق اس کنویں سے ضرور ہے کہ وہ رات کو بھی وہاں جانے سے نہیں گھبراتی۔
آج ارشی نے واپس شہر جانا تھا۔ جب گاڑی مائی بختو کے ٹھکانے کے سامنے سے گزرنے لگی تو ارشی نے فوراً گاڑی کو رکوائی اور گاڑی رکتے ہی نیچے اتری اور مائی بختو کے قریب جا کر دو زانوں بیٹھ گئی۔ اس نے مائی بختو کے7 گھٹنے پکڑ لئے ۔ مائی بختو جو ارشی کی آمد سے قطعی بے خبر کنویں کو دیکھنے میں محو تھیں۔ تسبیح کے دانے تیزی سے پھیرنے لگی۔
'' اماں خدا کے لئے میری مدد کرو۔ خدا کے لئے اماں میرا نوید۔۔۔۔۔۔۔۔!''
''بس۔'' مائی بختو کی گرجدار آواز فضا میں گونجی۔ ان کے ہاتھ رک گئے۔اس نی آنکھوں کا زاویہ بدلا اور ارشی کی آنکھوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ '' تیری آنکھوں میں محبت نہیں، پیار نہیں بلکہ عشق ہے۔ ''وہ '' تجھ سے تیرا عشق نہیں چھین سکتی۔ جا خدا تیری مدد کرے گا۔ اور سن ہار کبھی مت ماننا، ہمت کبھی مت ہارنا۔ جا میری دعا تیرے ساتھ ہے۔'' مائی نے ارشی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دوبارہ کنویں پر نظریں گاڑ کر ارشی سے لا تعلق ہو گئی۔ ارشی نے بھیگی آنکھین پونچھیں اور دوبارہ گاری میں آ کر بیٹھ گئی۔ جہاں اس کے والدین بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
گاؤں سے آئے انہیں 5 دن ہی ہوئے تھے کہ ارشی کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا وہ یونیورسٹی صرف نوید کو دیکھنے جاتی تھی۔ نوید نے خھود بھی پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ اب وہ شاذ و نادر ہی یونیورسٹی میں نظر آتا تھا۔ ارشی نے کچھ ہی دنوں بعد یونیورسٹی جانا بالکل ترک کر دیا ۔ وہ سارا سارا دن کمرے میں گھس کر خدا سے التجائیں اور دعائیں کرتی رہتی۔ اس کے کمرے میں ضرورت کی اشیاء کے علاوہ قرآن شریف، جائے نماز اور تسبیح ضرور موجود رہتی تھی۔ ارشی نے اپنے کمرے سے ٹی وی۔ وی سی آر اور ٹیپ ریکارڈر نکال باہر کیے اور کمرہ انتہائی سادگی سے سجایا۔ اس نے اپنی ایک الگ تھلگ دنیا بسا لی۔ جس کا مقصد صرف اور صرف نوید کا حصول تھا ۔ اس کی سچی لگن اور محنت رنگ لائی اور اوپر والے کو اس کی عبادت اور اس کا بے لوث عشق پسند آیا اور اسے تاکیدی خواب نظر آنے لگے۔ جس میں باقاعدہ اسے سبق پڑھایا جانے لگا۔ وہ سوتے میں جو سبق پڑھتی، صبح اٹھ کر قرآن شریف سے وہی سبق پوری توجہ سے با معنی یاد کر لیتی۔ اس طرح کرتے کرتے اس نے تقریباً پورا قرآن حفظ کر لیا۔ اسے اس دنیا کی کوئی خبر نہ تھی کہ روزمرہ کی زندگی میں اس دنیا میں کیا تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں۔ ہاں البتہ اسے نوید کی پوری خبر تھی کہ وہ کیسا ہے ، کہاں ہے، اور کس حال میں ہے۔
اسے نوید کی پریشانی کے بارے میں علم ہو چکا تھا اور اب وہ اسی پریشانی کو دور کرنے کا سد باب کر رہی تھی۔ ارشی کو اس کے مقصد سے باز رکھنے کے لئے کئی اندیکھی طاقتوں نے اسے نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی۔ لیکن ارشی ایک مضباط چٹان بن چکی تھی جس کے سینے میں قرآن پاک منور تھا اور جس کی روشنی کے آگے کوئی ظاہری اور غیبی بلا ٹک نہیں سکتی۔ دوسری بڑی وجہ مائی بختو کی دعا تھی۔ جس کے طفیل وہ ہمیشہ ثابت قدم رہی۔ ارشی کی حالت دیکھ کر واقعی عشق کی سچائی کا یقین ہو جاتا تھا۔ وہ ارشی جس نے دنیا چھوڑ دی، تعلیم چھوڑ دی، اپنوں کو چھوڑ دیا بس صرف اپنے خدا سے لو لگا لی اور اپنی خواہش کے پورا ہونے کی دعائیں کرنے لگی۔ ارشی جان چکی تھی کہ اس کا مقابلہ کسی انسان سے نہیں ہے۔